موت کی تیاری کیلیے ضروری اعمال
- Get link
- X
- Other Apps
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ
- موضوع کا آغا
- تاریخ https://masjidalnabawi.blogspot.com/2021/01/blog-post.html?m=1آغا
بسم الله الرحمن الرحيم
موت کی تیاری کیلیے ضروری اعمال
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 22 رجب 1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "موت کی تیاری کیلیے ضروری اعمال" ارشاد فرمایا جس انہوں نے کہا کہ یہاں ہر ایک شخص مستقبل بنانے کیلیے تگ و دو کرتا ہے تاہم کامیاب وہی ہوتا ہے جو دنیا و آخرت دونوں جہانوں کیلیے تیاری کرے، اور چونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے تو ہم سب کو اس کیلیے تیاری کرنی چاہیے، اچھی موت ہر مومن کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے؛ اسے پانے کیلیے عقیدہ توحید اپنائیں، خالق و مخلوق کے حقوق و فرائض سمیت حدود الہی کی پابندی کریں، گناہوں سے بچیں، ہر وقت موت کی تیاری میں رہیں اور وقت نزع اللہ تعالی سے کلمہ نصیب ہونے کی دعا کریں۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جو ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے والا ہے، وہی بادشاہی، عزت، ملکوت اور جبروت والا ہے، میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع کرتا ہوں اور گناہوں کی معافی چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، تمام انسان اسی کے قابو میں ہیں وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور جو چاہتا ہے فیصلے فرماتا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، یا اللہ! اپنے چنیدہ بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور یکسو صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی اپنانے کیلیے رضائے الہی تلاش کرو اور اللہ کی نافرمانی سے دور رہو، تقوی تمہاری زندگی کے حالات درست کرنے کا ذریعہ ہے، مستقبل کے خدشات و توقعات کیلیے یہی زادِ راہ ہے، تباہ کن چیزوں سے تحفظ اسی سے ممکن ہے، اللہ تعالی نے تقوی کے بدلے میں جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔
اللہ کے بندو!
اس زندگی میں ہر شخص اپنے فائدے کیلیے تگ و دو کرتا ہے، اپنے معاملات سنوارنے اور ذرائع معاش کیلیے کوشش کرتا ہے، ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دین اور دنیا دونوں کو سنوارتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے دنیا میں خیر سے نوازا اور آخرت میں بھی ان کیلیے خیر و بھلائی ہے، نیز انہیں آگ کے عذاب سے بھی تحفظ دیا ۔
جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کیلیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں لیکن آخرت کو بھول جاتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو گل چھرّے اڑاتے ہیں اور ڈنگروں کی طرح کھاتے ہیں ، ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔
کسی بھی تمنا یا کام کی ایک انتہا ہے وہاں پہنچ کر وہ ختم ہو جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى}
اور بیشک تیرے رب کی طرف ہی [ہر چیز نے]پہنچنا ہے۔ [النجم : 42]
پاک ہے وہ ذات جس نے تمام دلوں کیلیے مصروفیات، ہر ایک کے دل میں تمنائیں اور سب کیلیے عزم و ارادہ پیدا کیا، وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا اور جسے چاہے چھوڑ دیتا ہے، لیکن اللہ تعالی کی مرضی اور ارادہ سب پر بھاری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ}
اور اللہ رب العالمین کی مرضی کے بغیر تمہاری کوئی مرضی نہیں ہے۔[التكوير : 29]
لہذا جو اللہ تعالی چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔
موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے، اس دنیا میں ہر ذی روح چیز کی انتہا موت ہے، اللہ تعالی نے موت فرشتوں پر بھی لکھ دی ہے چاہے وہ جبریل، میکائیل، اور اسرافیل علیہم السلام ہی کیوں نہ ہوں، حتی کہ ملک الموت بھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ}
اس دھرتی پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی [26] صرف تیرے پروردگار کی ذات ِ ذوالجلال و الاکرام باقی رہے گی۔[الرحمن: 26- 27]
موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے؛ موت کے ساتھ ہی دنیاوی آسائشیں ختم ہو جاتی ہیں اور میت مرنے کے بعد یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر درد ناک عذاب ۔
موت اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ، موت سے اللہ تعالی کی قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کا مکمل تسلط عیاں ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ}
اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ [الأنعام: 61]
موت اللہ تعالی کی طرف سے عدل پر مبنی ہے، چنانچہ تمام مخلوقات کو موت ضرور آئے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:
{كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، پھر ہماری طرف ہی تمھیں لوٹایا جائے گا۔[العنكبوت: 57]
موت کی وجہ سے لذتیں ختم ، بدن کی حرکتیں بھسم ،جماعتیں تباہ، اور پیاروں سے دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، یہ سب اللہ تعالی اکیلا ہی سر انجام دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ}
وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے، رات اور دن کا آنا جانا اسی کے اختیار میں ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے[المؤمنون: 80]
موت کو کوئی دربان روک نہیں سکتا، کوئی پردہ اس کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا، موت کے سامنے مال، اولاد، دوست احباب سب بے بس ہوتے ہیں، موت سے کوئی چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، با رعب یا بے رعب کوئی بھی نہیں بچ سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ}
آپ کہہ دیں: جس موت سے تم بھاگتے ہوئے وہ تمھیں ضرور ملے گی، پھر تمھیں خفیہ اور اعلانیہ ہر چیز جاننے والے کی جانب لوٹا دیا جائے گا، پھر وہ تمھیں تمہاری کارستانیاں بتلائے گا۔[الجمعہ: 8]
موت اچانک آ کر دبوچ لیتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
اور جب کسی نفس کی موت کا وقت آگیا تو اللہ تعالی کسی کو ہر گز مہلت نہیں دے گا ، اور اللہ تعالی تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔[المنافقون: 11]
موت انبیائے کرام کے علاوہ کسی سے اجازت نہیں لیتی؛ کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں انبیائے کرام کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے، اس لیے موت ہر نبی سے اجازت طلب کرتی ہے، ایک روایت میں ہے کہ ہر نبی کو اللہ تعالی دنیا میں ہمیشہ رہنے یا موت کا اختیار دیتا ہے تو انبیائے کرام موت پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کیلیے اللہ تعالی کے ہاں اجر عظیم ہے اور دنیا کو وہ معمولی چیز جانتے ہیں۔
یہ اللہ تعالی کی مرضی ہے کہ اولاد آدم کو دنیا سے موت دے کر نکالے اور اس کا رابطہ دنیا سے ختم ہو جائے ، چنانچہ اگر وہ مؤمن ہو تو اس کا دل ذرہ برابر بھی دنیا کا مشتاق نہیں ہوتا، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(اللہ تعالی کے ہاں کسی کا اتنا مقام نہیں ہوتا کہ دنیا کی طرف پھر لوٹ جانا پسند کرے، چاہے وہاں اسے دنیا بھر کی چیزیں مل جائیں، البتہ شہید یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کی طرف لوٹا یا جائے اور اسے دسیوں بار قتل کیا جائے، کیونکہ وہ قتل فی سبیل اللہ کی فضیلت دیکھ چکا ہے) بخاری و مسلم
موت لازمی طور پر آ کر رہے گی اس سے خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، موت کی شدید تکلیف کوئی بھی بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتا؛ کیونکہ روح کو رگوں، پٹھوں اور گوشت کے ایک ایک انگ سے کھینچا جاتا ہے، درد کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو لیکن وہ موت کے درد سے کم ہی ہوتا ہے۔
- عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حالت نزع میں دیکھا، آپ کے پاس ایک پیالے میں پانی تھا، آپ اپنا ہاتھ اس پیالے میں کر اپنا چہرہ صاف کرتے اور فرماتے: ("اَللَّهُمَّ أَعِنِّيْ عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَسَكَرَاتِ الْمَوْتِ"یا اللہ! موت کی سختی اور غشی پر میری مدد فرما) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے، کچھ روایات کے الفاظ میں ہے کہ: (بیشک موت کی غشی بہت سخت ہوتی ہے)
- ایک شخص نے اپنے والد کو حالت نزع میں کہا: "ابا جان! مجھے موت کے درد کے بارے میں بتائیں تا کہ میں بھی عبرت پکڑوں" تو والد نے کہا: "بیٹا! ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ ایک مڑی ہی کنڈی میرے پیٹ میں گھمائی جا رہی ہے اور میں سوئی کے ناکے میں سے سانس لے رہا ہوں" ایک اور قریب المرگ شخص سے کہا گیا کہ کیسا محسوس کر رہے ہو؟ تو اس نے کہا: "مجھے لگ رہا ہے کہ میرے پیٹ میں خنجر چلائے جا رہے ہیں" ایک شخص سے موت کی المناکی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: "ایسے لگتا ہے کہ میرے پیٹ میں آگ بھڑکائی جا رہی ہے"
لیکن جو شخص موت کو بھول جائے، دنیا میں مگن ہو، بد عملی میں مبتلا ہو، خواہشات کا انبار ذہن میں ہو ، تو ایسے شخص کیلیے موت سب سے بڑی نصیحت ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لذتوں کو پاش پاش کر دینے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو) ترمذی، نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: موت لذتوں کو ختم اور زائل کر دینے والی ہے۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رات کی ایک تہائی گزر گئی تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: (لوگو! اللہ کو یاد کرو، جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو ساتھ ہی دوسرا بھی پھونک دیا جائے گا، موت کے ساتھ ہی تمام سختیاں شروع ہو جاتی ہیں) ترمذی نے اسے روایت کیا اور حسن قرار دیا۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:
"نصیحت کیلیے موت اور توڑنے کیلیے زمانہ کافی ہے، آج گھروں میں تو کل قبروں میں رہو گے" ابن عساکرموت کی تیاری
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment